مرشد تیرے کرم سے زمانے میں بات ہے
(ا مرشد اکبر حضرت جی!)
بندے کو ناز ہے کہ تو بندہ نواز ہے
تیری رحمتوں کا دریا سر عام چل رہا ہے
مجھے فیض مل رہا ہے میرا کام چل رہا ہے
تیرا کرم یہ تو تیرا کرم ہے۔۔ مرے مرشد یہ تو تیرا کرم ہے
حضرت رشید الحق کا رتبہ دراز ہے
اللہ کی سرزمین پہ مرشد کا راج ہے
جس کو نوازا مرشد نے وہ سرفراز ہے
بندے کو ناز ہے کہ تو بندہ نواز ہے
تیرا کرم۔۔۔۔
دنیا میں جو قائم تیرے منگتوں کا بھرم ہے
یہ تیری عنایت ہے یہ سب تیرا کرم ہے
تیرا کرم۔۔۔۔
نور نبی سے دل کو منور بنا دیا
قطرے کو تو نے چاہا سمندر بنا دیا
تیرے کرم کی میں مرشد اور کیا مثال دوں
قسمت کا تو نے مجھ کو سکندر بنا دیا
تیرا کرم۔۔۔
چمکا دیئے ہیں تو نے مقدر کے ستارے
رحمت کے پھول کھل گئے آنگن میں ہمارے
تیرا کرم ۔۔۔۔
مشکل کشا کا لعل ہے ہمراز پیمبر
تیرے کرم سے ہو گئے ابدال قلندر
مرشد تیری غلامی پہ ہم سب کو ناز ہے
مرشد میرا فیضان کرم کا ہے سمندر
تیرا کرم۔۔۔۔
تن من کو میرے رنگ دیا نقشبندی بہار سے
شاہوں نے بھیک پائی ہے تیرے دیار سے
تیرا کرم۔۔۔
تو ہے عطائے مصطفی کے ایماں کا اجالا
تیرے کرم نے سارے زمانے کو سنبھالا
مشہور کر دیا ہے مجھے سارے جہاں میں
کہتا رشید الحق کا ہے چاہنے والا
تیرا کرم ۔۔۔۔
تیری مستی ء نظر سجا سرہند کا مہ کدہ ہے
کہیں مہ برس رہی ہے کہیں جام چل رہا ہے
اسے کیا مٹائے دنیا جسے آپ نے نوازا
نقش قدم پہ تیرے یہ غلام چل رہا ہے
تاریکیوں میں گم تھا یہ مجذوب صوفی ہمسر
تیری نسبتوں کے صدقے میں یہ نظام چل رہا ہے
No comments:
Post a Comment