بظاہر تو یہ دنیا خوبصورت ہے سہانی ہے
بقا اس کو نہیں حاصل یہ دنیا دار فانی ہے
کبھی اترا کے چلتا ہے کبھی بل کھا کے چلتا ہے
تو جس پر ناز کرتا ہے یہ دو روزہ جوانی ہے
کہاں قارون کی دولت کہاں شداد کی جنت
کہاں فرعون کی وہ جابرانہ حکمرانی ہے
نہ ہو مغرور دولت کے نشے میں اے میرے بھائی
نہیں رہتی ہے کس کے پاس دولت آنی جانی ہے
فلاح و کامرانی نے قدم اس کے ہی چومے ہیں
محمد مصطفی کی بات جس انساں نے مانی یے
وہی اللہ کے محبوب کا محبوب ہے محسن
کہ جس مومن کی پیشانی پہ سجدوں کی نشانی ہے
No comments:
Post a Comment