Thursday, March 17, 2016

عارفانہ کلام

غم ان کے راستے کے سنبھالے نہیں گئے
جب تک کہ مرشدی سے دعا لے نہیں گئے

کانٹے پناہ گزیں تھے جو پھولوں کی اوٹ میں
گلشن سے باخدا وہ نکالے نہیں گئے

ان کی نظر سے قلب میں وہ روشنی ہوئی
پلکوں سے قمقموں کے اجالے نہیں گئے

ان کی خدا رسیدہ نگاہوں کے فیض سے
کم ہیں جو اپنے دل میں خدا لے نہیں گئے

ایمان ، صدق ، مہر ، وفا ، آگہی ، خلوص
تائب یہاں جو آئے وہ کیا لے نہیں گئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جو نظر کو شیخ کی نظروں سے ملائے ہوئے ہیں
ساری دنیا کو نگاہوں سے گرائے ہوئے ہیں

حسرت و یاس سے تکتے ہیں انہیں ماہ و نجم
قمقمے شیخ جو پلکوں پہ سجائے ہوئے ہیں

سانس اکھڑتی ہے مگر پاءوں اکھڑتے ہی نہیں
راہ تقوی میں قدم ایسے جمائے ہوئے ہی

دیکھیئے کیسے چلا کرتے ہیں چلنے والے
خار سے دامن تقوی کو بچائے ہوئے ہیں

کیسی نکھری ہوئی رنگت ہے میرے مرشد کی
کیوں نہ ہو خون تمنا سے نہائے ہوئے ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اک باغباں کو دیکھیئے سو بار دیکھیئے
گلشن میں آکے کیا درو دیوار دیکھیئے

دنیا ہے آس پاس مگر دل سے دور ہے
اب بھی ہیں صاحب کردار دیکھیئے

کیا کچھ نہ باغباں نے کی محنت دعا کے ساتھ
کیسا چمن ہے آج ثمر بار دیکھیئے

آنکھیں ہر ایک کی وہ جو بچاتے ہیں غیر سے
کتنے ہیں ان کے طالب دیدار دیکھیئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کب کہا کہ یہ دنیا اہل دل سے خالی ہے
لیکن اپنے مرشد کی بات ہی نرالی ہے

تم گمان رکھتے ہو ہم یقیں سے کہتے ہیں
شان تربیت ان کی دھر میں مثالی ہے

آپ کی عنایت ہے آج جو بھی ہیں ہم سب
اپ نے دعا دی ہے آپ سے دعا لی ہے

غفلتوں کی راتیں تھیں اور ہماری بے چینی
آپ نے تسلی دی صبح ہونے والی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمیشہ خدا کی محبت کی باتیں
ہمیشہ نبی کی اطاعت کی باتیں
یہی میرے مرشد کی جلوت کی باتیں
یہی میرے مرشد کی خلوت کی باتیں

جو حسن سماعت خدا ہم کو بخشے
تو کانوں سے اپنے سماعت کریں ہم
بلا کی بلاغت غضب کی فصاحت
جنوں کی حکایت قیامت کی باتیں

نگاہیں جھکا کر گزرنا سکھایا
خدا سے سر راہ ڈرنا سکھایا
بچاییں جو شر او آفت سے ہم کو
سکھائیں وہ ہم کو شرافت کی باتیں

ہواءوں پہ آڑنا نہ پانی پہ چلنا
شریعت و سنت کی سانچے میں ڈھلنا
یہی کچھ بتاتے ہیں مرشد ہمارے
یہی کچھ ہیں ان کی کرامت کی باتیں

مقالے کا عنوان ہے حسن فانی
حیا سے ہے پی ایچ ڈی پانی پانی
بچاتے ہیں وہ عشق صورت سے ہم کو
سنا کرہمیں حسن سیرت کی باتیں

نہ گلشن میں آتے نہ ملی سے ملتے
نہ تقوی کے چاروں طرف پھول کھلتے
نہ تائب مصائب سے بچ کر نکلتے
خداکی قسم ہیں یہ قسمت کی باتیں
۔۔۔۔۔۔

عجیب درد ہے اس باخدا کے لہجے میں
وہ ٹوکتا ہے خطا پر عطا کے لہجے میں

بظاہر ان کا لب و لہجہ سخت ہو لیکن
وہ تب بھی رکھتے ہیں شفقت چھپا کے لہجے میں

میرے گماں میں ہے اب خال خال ہی ایسے
جو غیر سے بھی ملیں آشنا کے لہجے میں

یہ حوصلہ مجھے ابدال وقت ہی سے ملا
کہ میں بھی شعر کہوں اولیا کے لہجے میں

وہ گل ہو خار بلبل کے زاغ ہو تائب
ہر ایک سے بات کریں وہ صبا کے لہجے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔

کسر کچھ نہ چھوڑی تھی حرص و حوا نے
میری لاج رکھ لی تمہاری دعا نے

تمہیں گر نہ پاتے کہیں کے نہ رہتے
ملا ہم کو جو کچھ تمہارے بہانے

گو نام خدا تو زباں زد تھا لیکن
خدا سے ملایا ہمیں باخدا نے

کہو معترض سے زیادہ نہ بولے
وہ سن ہو جائے لہو جب سنانے

گرے جب پڑے تھے تو کون آیا ہم کو
اٹھا کر بٹھانے بٹھا کر چلانے

چلا کر نہیں جس نے چل کر دکھایا
کوئی اس کا احسان کیوں کر نہ مانے

ارے عقلمندوں تم عاشق نہیں ہو
اگرہوتے عاشق تو ہوتے دیوانے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




No comments:

Post a Comment