Thursday, April 30, 2015
Daman E Murshid Pakarr
Wednesday, April 22, 2015
Tab mjhe mehsoos hota he ke kia hoan ge huzoor
صبح دم جب بزم گل میں چہچہاتے ہیں طیور
پهوپهٹ جب جھلملاتا ہے فضائے شب میں نور
روشنی جب پردہ ء ظلمت سے کرتی ہے ظہور
تب مجهے محسوس ہوتا ہے ہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
چاندنی کے تار جب بنتے ہیں دام عنکبوت
صورتِ غارحرا ہوتا ہے جب شب کا سکوت
جب اجڑتی ہے افق سے اک جبیں صد رشک طور
تب مجهے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
جب مہکتی ہیں ہوائیں جاگتے ہیں دشت و راہ
جب سرہربرگ گل جلتے ہیں شبنم کے چراغ
جب اجالے توڑ دیتے ہیں اندھیروں کا غرور
تب مجهے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
اک ہوائے سرکشی میں جھومتے ہیں جب نہال
جب اذاں بن کر چمک اٹهتی ہے آواز بلال
دل پہ جب اسم محمد سے برستا ہے سرور
تب مجھے محسوس ہوتاہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
دل کی ہر دهڑکن سے آتی ہے صدائے مصطفیٰ
جب میرے سینے میں کهلتے ہیں ولائے حق کے پهول
جب میری سانسوں کی خوشبو پهیلتی ہے دور دور
تب مجهے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
کوزہء دل میں سما جاتی ہے جب ارض وسیع
نیم خوابی میں یہ وا آنکهوں پہ ہوتی ہے محیط
اور جب پوری طرح بیدار ہوتا ہے شعور
تب مجھے محسوس ہوتاہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
صبح صادق کی طرح صدیق تها جو وہ حسیں
دولتِ لوح و قلم کا جو امیں تها وہ امیں
جب قلم کی روشنی بنتے ہیں یہ القاب نور
تب مجهے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
عرش سے تا فرش جب آتی ہے آواز درود
ہر طرف ہوتا ہے جب پاکیزہ کرنوں کا ورود
جب نظر آتا ہے ہر ذرہ مثال کوہ طور
تب مجهے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
زعبدہ ما صوت میں جب گونجتی ہے برملا
المزمل، المدثر، المبشر کی صدا
اور جب قرآن کی آیات سے اٹهتا ہے نور
تب مجهے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
کچھ نہیں ہے پاس میرے اک تصور کے سوا
یہ تصور بهی نہیں کچھ اک تخیل کے سوا
پهر بهی جب میرا تصور دیکهتا ہے کچھ ضرور
تب مجهے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
جب فضا ہوتی ہے زلف عنبریں سے مشک بار
جب نگاہوں پر برستی ہیں سماوی آبشار
جب خیالوں میں ابهرتے ہیں لب و رخسار نور
تب مجهے محسوس ہوتا ہے کہ کیا ہوں گے حضور (2)
Wednesday, April 8, 2015
Aap kee naatain me likh likh kar sunaoon aap ko
آپ کی نعتیں میں لکهہ لکهہ کر سناءوں آپ کو
کس طرح راضی کروں کیسے مناءوں آپ کو (2 )
آپ کو راضی نہ کر پایا تو مر جاءوں گا میں
چهوٹی چهوٹی کرچیاں بن کر بکھر جاءوں گا میں
زندگی کا اس طرح مجهہ کو مزا کیا آئے گا
دل سیاہی کے بهنور میں ڈوبتا رہ جائے گا
واسطہ دوں آپ کو میں آپ کے حسنین کا
یار غارثور کا صدیقہء کونین کا(2 )
آپ تو دشمن کی حق میں بهی دعا کرتے رہے
بے وفا لوگوں سے بهی ہر دم وفا کرتے رہے
آپ تو رحمت ہی رحمت ہیں جہانوں کے لئے
میرے جیسے بے عمل اور بے ٹهکانوں کے لئے
آپ کا یہ روٹھنا ارض و سما کا روٹھنا
عرش کا سارے جہانوں کے خدا کا روٹھنا
آپ کی نعتیں. ..............
آپ کی نظروں سے جو گرتا ہے مر جاتا ہے وہ
راکهہ بن کر اپنے قدموں میں بکھر جاتا ہے وہ
اس طرح تو آدمی خود آدمی رہتا نہیں
صاحب ایمان کیا انسان بهی رہتا نہیں
کیسے کیسے دشمنوں پہ رحم کها یا آپ نے
آگ سے کتنے ہی لوگوں کو بچایا آپ نے (2)
اپنے جوتوں اپنے سائے میں بٹها دیجے مجهے
آپ کا ناچیز خادم ہوں دعا دیجے مجهے
زندگی کی تیز لہروں میں نہ بہہ جاءوں کہیں
گرد بن کر راستے ہی میں نہ رہ جاءوں کہیں
آپ کو خاتون جنت اور علی کا واسطہ
آپ کو فاروق و عثمان غنی کا واسطہ
آپ کی نعتیں. ...............
زندگی کو اک بہت مشکل سفر درپیش ہے
ایک مشکل امتحاں بار دگر درپیش ہے
سوچ میں ڈوبا ہوا ہوں سوچ ہی میں قید ہوں
بے بسی گهیرے ہوئے ہے بے بسی میں قید ہوں
ٹوٹتے جاتے ہیں سارے آسرے جتنے بهی ہیں
بے اثر ہیں لوگ سب چهوٹے بڑے جتنے بهی ہیں(2)
کس قدر کتنا ضروری ہے سہارا آپ کا
میری قسمت ہی بدل دے گا اشارہ آپ کا
لوگ اکثر شاعر اصحاب کہتے ہیں مجهے
ان کی خاطر روز و شب بیتاب کہتے ہیں مجهے
بے عمل ہوں مغفرت کا اک سہارا ہے ضرور
آپ کا ہر صحابی جاں سے پیارا ہے حضور (2)
آپ کی نعتیں. ............
میں نے مختص کر لی اپنی چشم تر ان کے لئے
مضطرب رہتا ہوں میں شام و سحر ان کے لئے
میں نہ سرمد ہوں نہ مجنوں ہوں نہ میں منصور ہوں
ان کا شاعر اور ان کا بندہء مزدور ہوں
میری خواہش ہے کہ ان کی خوبیاں لکهتا رہوں
شوق سے میں آسماں کو آسماں لکهتا رہوں
ان کے صدقے آپ مجهہ پر مہربانی کیجئے
میرے حال زار پر آقا توجہ دیجئے
آپ سے رشتہ غلامی کا سدا قائم رہے
خواجگی اور بندگی کی یہ فضا قائم رہے
میرے سر پر مشکلوں کا آسماں گرنے کو ہے
ذرہء ناچیز پر کوہ گراں گرنے کو ہے
آپ کی نعتیں. ..........
گهپ اندھیرے میں کهڑا ہوں اے حرا کے آفتاب
پرزہ پرزہ ہو رہی ہے میری خوشیوں کی کتاب
میرے حق میں اپنے خالق سے دعا فرمائیے
اے میرے آقا کرم کی انتہا فرمائیے
دیکهنے میں تو مجهے بے آسرا کہتے ہیں لوگ
عہد ماضی کی کوئی بهولی صدا کہتے ہیں لوگ(2)
کس طرح روکوں میں اس طوفان اور سیلاب کو
ذہن سے کیسے نکالوں خوفناک اس خواب کو
میری اپنی سانس بهی اب تو میرے بس میں نہیں
تهک گئی ہے چلتے چلتے اب میری لوح جبیں
دیکهہ کر دشوار راہیں زندگی گهبرا گئی
میرے گهر تک آتے آتے روشنی گهبرا گئی (2)
سبز گنبد کی طرف اٹهتی ہیں نظریں بار بار
آپ کی رحمت کو دیتا ہے صدا یہ خاکسار
خالق ارض و سما سے اب دعا کیجئے حضور
مہرباں ہو جائیں مجهہ عاصی پہ اب رب غفور
میری ہمت سے زیادہ ہے پریشانی کا بوجھ
میں اٹها سکتا نہیں اپنے تن فانی کا بوجھ(2)
راہ پر چلتے ہوئے اب ڈگمگا جاتا ہوں میں
سانس لینے پر بهی اب تو لڑکھڑا جاتا ہوں میں
لب ہلا دیجے میری خاطر دعا کے واسطے
رحم فرما دیجئے مجهہ پر خدا کے واسطے
آپ کی نعتیں. ........
Wednesday, April 1, 2015
Dar e nabi ki taraf chala hu
در نبی کی طرف چلا ہوں(5 )
بدن پہ چادر ہے آنسوؤں کی
لہو میں لذت ہے راستوں کی
بغیر خوشبو مہک رہا ہوں
در نبی کی ... (2)
طواف کعبہ تها فرض مجهہ پر
در نبی کا ہے قرض مجهہ پر
سمٹ کے سایہ فگن ہوا ہے
جہان کا طول و عرض مجهہ پر
شریکِ رفتار جو رہے ہیں
وہ فاصلے ختم ہو رہے ہیں
میں آج سے اپنی ابتدا ہوں
درنبی کی طرف چلا ہوں (1)
دکهائی دینے لگا مدینہ
مثال در کهل رہا ہے سینہ
ہوائیں حوروں کے دم سے جیسی
فضائیں خلدبریں کا زینہ
کهلے ہوئے بازوءوں سی راہیں
ہر اک مسافر کو اتنا چاہیں
کہ ان کی چاہت پہ مر مٹا ہوں
در نبی کی طرف چلا ہوں.(1)
یہ ساعتیں قیمتی بهی آئیں
کہ حاضری کو چلی جدائی
دهڑک رہے ہیں حواس خمسہ
لرز رہے ہیں برہنہ پائی
بہشت عالم ہے یہ علاقہ
قدم قدم نقش پائے آقا
زمیں کے شیشے میں دیکهتا ہوں
در نبی کی طرف چلا ہوں. (1)
در نبی پر پہنچ گیا ہوں (4)
یقیں ہوائی سا ہے گماں پر
زمین پر ہوں کہ آسماں پر
میں ہوں نہیں ہوں جو ہوں تو کیا ہوں
در نبی پر پہنچ گیا ہوں.(1)
یہ رنگ نام و نمود میرا
نہ سایہ ہست و بود میرا
کهنک کهنک نور مصطفی سے
پگھل رہا ہے وجود میرا
جمال سرکار ذوفشاں ہے
نگاہ بهی درمیاں کہاں ہے
سراپا آنکهیں بنا ہوا ہوں
در نبی پر پہنچ گیا ہوں .(1)
یہ دید معراج ہے نظر کی
یہی کمائی ہے عمر بهر کی
رئیس لیل و نہار ٹهہرا
طلب ہو کیا مجهہ کو مال و زر کی
شعور و عرفان و آگہی سے
خزانہء جلوہء نبی سے
تجوریوں کی طرح بهرا ہوں
در نبی پر پہنچ گیا ہوں. (1)
یہ روضہء شاہ انبیاء ہے
کہ کرسی و عرش کبریا ہے
بندها ہے درباریوں کا تانتا
عجیب انداز تخلیہ ہے
بغیر اجازت ہو باریابی
سیاہیء دل ہو آفتابی
میں زنگ خوردہ چمک اٹها ہوں
در نبی پر پہنچ گیا ہوں.(1)
در نبی سے پلٹ رہا ہوں.(4)
زمین ہے میرے سر پہ جیسی
ٹهہر گئی روح در پہ جیسی
بدن کے ہمراہ چل پڑا ہوں
در نبی سے پلٹ رہا ہوں.(1)
میں یوں دیار نبی سے نکلا
کہ جیسے شعلہ کلی سے نکلا
لئے ہوئے رحمتوں کے سائے
میں حلقہء روشنی سے نکلا
اگرچہ پی آیا ہوں سمندر
مگر بڑی تشنگی ہے اندر
میں خوش ہوں لیکن بجها بجها ہوں
در نبی سے پلٹ رہا ہوں.(1)
دوبارہ جانے کی آرزو ہے
کہ خود کو پانے کو آرزو ہے
جو حج پہ احرام باندھتے ہیں
پہن کے آنے کی آرزو ہے
جو کوئے آقا کی دے گواہی
اسی کفن میں مروں الہی
تڑپ ہوں فریاد ہوں دعا ہوں
نبی نبی پهر پکارتا ہوں
نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی نبی(16)