وہ میرا شیخ میری قوم کا رہبر ہے کہاں
سیدی مرشدی مولائی حضرت ہے کہاں
ایسا ملت میں کوئی مرشد اکبر ہے کہاں
میرا محبوب میرا مرشد اکبر ہے کہاں
جن کے دیدار سے اللہ کی یاد آتی ہے
روح و ایمان کو بھی تازگی مل جاتی ہے
زندگی نور ہدایت سے نکھر جاتی ہے
ان کی ہر بات ہر اک دل میں اتر جاتی ہے
آہ وہ پیر فغاں گردش ساگر ہ کہاں
وہ میرا شیخ میری قوم کا رہبر ہے کہاں
غم کے طوفاں میں ہے برباد سفینہ دل کا
کوئی منزل کا نشاں ہے نہ پتہ ساحل کا
کون سلجھائے گا عقدہ بھی میری مشکل کا
رہبر ہے نہ کوئی اذن میری منزل کا
بحر حالات و مسائل کا ثناور ہے کہاں
وہ میرا شیخ میری قوم کا رہبر ہے کہاں
صدمہ ء ہجر میں ڈوبے ہوئے دیوانے ہیں
اب نہ ہی قلقلوں کی آہ نہ پیمانے ہیں
ساقی ء بادہ ء عقبی ہے نہ مستانے ہیں
اب فقط بے خودی و کیف کے افسانے ہیں
آہ وہ حکمت و دانش کا سمندر ہے کہاں
وہ میرا شیخ میری قوم کا رہبر ہے کہاں
اپنے بگڑے ہوئے حالت بتاءوں کس کو
اور سلگتے ہوئے جذبات دکھاءوں کس کو
ضبط غم توڑ کے خود روءوں رلاءوں کس کو
اور صوفیانہ کلامات سناءوں کس کو
صاحب دل کی نگاہوں میں وہ منظر ہے کہاں
وہ میرا شیخ میری قوم کا رہبر ہے کہاں
فقہ تفسیر احادیث و مسائل کا امام
بحت و ہاہوت سے بھی بالا ہے اس کا مقام
زندگی بخش ہے ہر دل کے لئے ان کا کلام
حاکم وقت بھی کرتا ہے عقیدت سے سلام
اور تصوف کا وہ سرمست قلندر ہے کہاں
وہ میرا شیخ میری قوم کا رہبر ہے کہاں
آج دل ان کی محبت میں ہے بے حد مغموم
روح مجذوب کی خوشی خوشی ہے معدوم
کتنے افسردہ ہیں مینجور ہیں سب کو معلوم
یااللہ انکے سایہء شفقت سے نہ کرنا محروم
خانقاہ پوچھتی ہے میرا سکندر ہے کہاں
وہ میرا شیخ میری قوم کا رہبر ے کہاں
بن ان کے دل میں نہ راحت ہے نہ طاقت باقی
رنگ و بو ہے نہ گلابوں میں نہ نکہت باقی
درد دل کا نہیں اب مرہم الفت باقی
رہ جائے نہ فقط سیینے میں حسرت باقی
سلسلہ ء عشق کے انوار کا مظہر ہے کہاں
وہ میرا شیخ میری قوم کا رہبر ہے کہاں۔
No comments:
Post a Comment