زخم الفت سے جو قلب گهائل نہیں
اہل الفت کی جانب وہ مائل نہیں
جانے کیا دوستوں لطف آہ و فغاں
درد الفت کا جو قلب حامل نہیں
بحر الفت کا کوئی کنارہ کہاں
یہ سمندر ہے وہ جس کا ساحل نہیں
صحبت شیخ سے جو بهی محروم ہے
بن کے رہبر بهی وہ شیخ کامل نہیں
اس کی منبر پہ تقریر بے کیف ہے
درد دل خاک میں جس کے شامل نہیں
جس کا دل اہل دل پر نہیں ہے فدا
اس کے سینے میں دل ہے مگر دل نہیں
سارے عالم میں اختر کی ہے یہ صدا
وہ کمینہ ہے جو ان کا سائل نہیں